زندگی جب قضا سے ملتی ہے

زندگی جب قضا سے ملتی ہے
ہائے کتنی وفا سے ملتی ہے


میں بھی چپ چاپ دیکھتا ہوں بس
میری عادت خدا سے ملتی ہے


میرے لب پر رکھی خموشی بھی
شور کی انتہا سے ملتی ہے


وہ مری راہ میں نہ آ جائے
وہ مرے رہنما سے ملتی ہے


بیٹھ جاتی ہے پیٹھ دے کے مجھے
زندگی اس ادا سے ملتی ہے


شہر پر آفتیں نہ پڑ جائیں
آگ جا کر ہوا سے ملتی ہے