وہی ہو علم بھی وہ ہی سخن تو بات بنے

وہی ہو علم بھی وہ ہی سخن تو بات بنے
غزل کا بھی وہی ہو پیرہن تو بات بنے


فقط ہے ایک پریشاں تو پھر یہ عشق نہیں
جبیں پہ دونوں کی آئے شکن تو بات بنے


ہماری روح کو پھر بھی بدن ملا ہے مگر
بدن کو بھی ملے کوئی بدن تو بات بنے


ہم اس کی آنکھوں سے اقرار تک پہنچ گئے ہیں
ذرا سا پڑھنے کو مل جائے من تو بات بنے


بھٹکتے رہنے سے اس دل کے حق میں کیا ہوگا
کسی کے عشق میں ہو جا مگن تو بات بنے


میں تیرے خواب کو پہنے ہوئے ہوں آنکھوں میں
تو میری آنکھ میں نیندیں پہن تو بات بنے


اگرچہ جسم کو تھوڑی تھکن سی ہے لیکن
ہماری آنکھوں پہ چھائے تھکن تو بات بنے