زندگی بوجھل ہوئی آزار سے

زندگی بوجھل ہوئی آزار سے
جسم جھکتا جا رہا ہے بار سے


دوستوں نے اس قدر دھوکے دیے
اور رغبت بڑھ گئی اغیار سے


زندگی کا اک نیا امکاں ہوا
اک دریچہ کھل گیا دیوار سے


اب بیاں کیسے کروں روداد غم
کام مشکل ہے دل نا چار سے


ہجر کی راتوں میں بہتا ہی رہا
ایک نالہ چشم دریا بار سے


مثل مجنوں ریگزاروں میں رہے
سر پٹکتے ریت کی دیوار سے


ہم اسیران محبت ہیں یہاں
الجھے ہیں اب گیسوئے خم دار سے


قلبؔ تیری غزلیں یوں شاداں کریں
درد نکلے ہے ترے اشعار سے