کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے گزرے ہیں

کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے گزرے ہیں
تری تلاش میں ہم لا مکاں سے گزرے ہیں


جنون شوق میں دیکھو کہاں سے گزرے ہیں
کہ دشت سے تو کبھی کہکشاں سے گزرے ہیں


نہ پوچھ ہم سے تو اب تو ہماری حالت کو
ترے فراق میں درد و فغاں سے گزرے ہیں


وہ مرحلے بھی ہیں گزرے یوں خستہ حالوں پر
بہاروں سے نہ کبھی ہم خزاں سے گزرے ہیں


بشر ہیں ہم تو زمانے کے اب ستائے ہوئے
کہ راہ عشق پہ ہم شادماں سے گزرے ہیں


یہ کیسا شور ہے ساری فضاؤں میں یارو
کہ لوگ سارے ہی ماتم کناں سے گزرے ہیں


وہ نام لیوا ترے جا چکے ہیں دنیا سے
جناب قلبؔ بھی آخر جہاں سے گزرے ہیں