مصیبت آئی ہے تو پھر مصیبت سے نہ گھبرانا (ردیف .. ہ)

مصیبت آئی ہے تو پھر مصیبت سے نہ گھبرانا
دیے کا کام ہے آخر سویرے تک جلے جانا


گزاری ہجر کی راتیں تمہاری یاد میں اکثر
کبھی جو ملنے آ جاؤ بہل جائے گا دیوانہ


نہیں ہے رشک مجھ کو تو حویلی اور دولت کا
میں مٹی کا ہوں پیکر اور اسی میں مجھ کو مل جانا


جنوں میں رقص کرتے ہی فنا ہو جائے گا آخر
قریب شمع آیا ہے وہ دیکھو ایک پروانہ


نہ صحرا میں نہ دریا میں نہ جنگل میں بیاباں میں
کہاں پر آ گیا ہوں میں ذرا یہ مجھ کو سمجھانا


میں آوارہ سا اک لڑکا معاشی فکر میں الجھا
یہی ہے داستاں میری یہی ہے میرا افسانہ


جہاں محبوب ہو تم قلبؔ سجدہ اس جگہ رکھنا
حرم ہو دیر ہو چاہے کلیسا ہو یا بت خانہ