جو آہ ادھر نکلی وہ پہنچی ہے ادھر کیا

جو آہ ادھر نکلی وہ پہنچی ہے ادھر کیا
پتھر کے کلیجے پہ بھی ہوتا ہے اثر کیا


اک ساتھ نہ کشتہ کرے جو دل کو جگر کو
ابرو کی کماں کیسی ہے وہ تیر نظر کیا


تھا دہر میں آباد کبھی اپنا چمن بھی
اس اجڑے چمن کو بھلا اب خوف شرر کیا


چبھتا ہے اجالا سا جو اب میری نظر میں
اس تیرہ شبی کی کبھی ہوتی ہے سحر کیا


جب قلبؔ کو ہی حسرت دیدار نہیں ہے
پھر عام بھی ہو جلوہ اگر لطف نظر کیا