عشق میں ڈوبا تو پھر میں نہ دوبارہ نکلا

عشق میں ڈوبا تو پھر میں نہ دوبارہ نکلا
یہ وہ دریا تھا کہ جس کا نہ کنارہ نکلا


اک فقط تجھ سے ہی امید فراموشی تھی
تجھ سے اے دل نہ مگر کام ہمارا نکلا


جان و دل پہ مرے بن آئی ہے اس الفت میں
عشق کے سودے میں کیوں اتنا خسارہ نکلا


غم طوفاں نے ڈبویا ہے سفینہ اپنا
اس تلاطم میں بھی کوئی نہ کنارہ نکلا


اب دعا سے ہی فقط عشق کا درماں ہو تو ہو
چارہ سازوں سے نہ اس کا کوئی چارہ نکلا


سنگ دل سے تری یاد آ کے جو ٹکرائی تھی
چوٹ پتھر پہ پڑی اور شرارہ نکلا


میں تو صحرا میں سرابوں سے بجھاتا ہوں پیاس
اب سمندر بھی مری پیاس سے ہارا نکلا


کب تلک قلبؔ یہ غم یوں ہی دباتا آخر
اشک جو ٹپکا تو پھر درد ہمارا نکلا