بچوں کے تعلیمی نتائج قبول کیجیے، انہیں مایوسی سے بچائیے!

ہمارے ہاں بچوں کی تعلیم اور تربیت کا عمل جن غلط یا ناپسندیدہ روایات کا شکار ہو چکا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ والدین اور بڑے بچوں کی ذہانت و قابلیت اور استعداد کا اندازہ ان کے امتحانی نمبروں یا گریڈز سے لگاتے ہیں۔ یعنی بچوں نے امتحانات میں جس قدر نمبر حاصل کیے ہوتے ہیں اسی سے انہیں لائق یا نالائق، کامیاب یا ناکام اور ذہین یا کند ذہن کے خانوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے ۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے بلکہ بچوں کے لیے انتہائی تکلیف دہ والدین اور بزرگوں کا وہ رویہ ہوتا ہے جو اس تقسیم کے بعد ان کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔

نمبر زیادہ لینے والے بچے سب کی آنکھوں کے تارے قرار پاتے ہیں اور کم نمبر لینے والے یا خدانخواستہ فیل ہونے  بچے گھر اور معاشرے میں جس رویے کا سامنا کرتے ہیں اس کا بیان کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔ ان رویوں کو پروان چڑھانے میں ہمارے تعلیمی اداروں کا بھی رول ہے، عموما ًسکولوں میں سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان عموماً والدین کو سکولوں میں مدعو کرکے کیا جاتا ہے اور اس موقع پر والدین کے انتہائی رویے دیکھنے کو بھی ملتے ہیں۔ کچھ تو اس قدر لاتعلق ہوتے ہیں یا لا تعلقی ظاہر کرتے ہیں کہ اس دن بھی سکول نہیں جاتے، جبکہ دوسری طرف ایسے بھی ہیں جو اپنے بچے کے ایک ایک نمبر کم ہونے یا کوئی پوزیشن نہ آنے کا شکوہ لیے بیٹھے رہتے ہیں۔ کچھ ذرا دبنگ قسم کے والدین سکولوں کے ذمہ داران سے باقاعدہ لڑائی جھگڑا کرتے اور اپنے بچوں کے لیے زبردستی کوئی انعام وصول کرتے بھی پائے جاتے ہیں۔ جو سکول والوں سے نہیں لڑسکتے وہ اپنے بچوں سے لڑتے اور انہیں سخت سست کہتے دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ دونوں انتہائی رویے مناسب نہیں ، یعنی یہ بھی درست نہیں کہ آپ اپنے بچے کی تعلیمی صورت حال اور اس  کے امتحانی نتائج سے بے خبر یا لاتعلق ہوں کیونکہ اس سے بچے کو یہ پیغام ملے گا کہ اسے اپنی زندگی میں والدین کی سپورٹ حاصل نہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ رویہ تو انتہائی غلط ہے کہ ہم ان امتحانات کو ہی بچوں کے لیے سب کچھ سمجھنے لگتے ہیں اور انہی میں کامیابی   یاناکامی پربچوں کی زندگی بھر کی کامیابی کا دارومدار قرار دینے لگتے ہیں۔

ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ سکول ، کالج اور تعلیمی اداروں کے امتحانات  اگرچہ بچے کے لیے اہم بھی ہیں اور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں تاہم یہ ان کی زندگی میں کامیابی کی ضمانت یا خدانخواستہ ناکامی کا الارم ہر گز قرار نہیں دیے جاسکتے۔ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بہت سے بچے جو سکول میں قابل ذکر کارکردگی نہیں دکھا  پاتے ، کالج یا یونیورسٹی میں جاکر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں یا پھر عملی زندگی میں کسی کاروبار وغیرہ میں خوب  کامیابی حاصل کرلیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسے بچوں کی بھی کمی نہیں جن کی تعلیمی کارکردگی فی زمانہ معیار کے لحاظ سے بہترین کہی جاسکتی ہے لیکن عملی زندگی کے امتحانات میں وہ بہت زیادہ کامیاب نہیں رہتے۔

دراصل تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا، سکول اور کالج آنا جانا اور اس کے امتحان پاس کرنا بچے کے دنیا سے کچھ سیکھنے کے عمل کا محض ایک حصہ ہیں۔   عملی زندگی  اس سے بالکل مختلف ایک ایسی دنیا ہے جس کے اپنے امتحانات ہیں اور جن کی تیاری شاید ہمارے سکولوں کالجوں میں کم ہی کروائی جاتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچوں کو عملی زندگی کے ان امتحانات کے لیے تیار کریں۔ یہ دیکھنے کی بجائے کہ بچے سکول کے امتحان میں کیا پوزیشن لے کر آرہے ہیں اور اس پر بچوں سے لڑنے کی بجائے کہ ان کے فلاں مضمون میں چار نمبر کم آگئے ہیں، ان سے یہ پوچھیے  کہ اس سال انہوں نے اپنی ان  صلاحیتوں میں کس حد تک اضافہ کیا ہے جو زندگی میں کام آنے والی ہیں۔ وہ کتنے وقت کے پابند ہوئے  ہیں، محنت کی عادت کس حد تک پختہ ہوئی ہے، خود سے بولنے اور لکھنے کی صلاحیتوں کی نشوونما کس حد تک ہو پائی ہے، ان کے مزاج معاشرتی اقدار اور روایات سے کس قدرہم آہنگ ہوپائے ہیں، انہیں زندگی میں آنے والے چیلنجز کا کس قدر ادراک ہے اور ان سے  مثبت مقابلے کا رجحان کتنا بڑھا ہے اور سب سے بڑھ کر انہوں نے اس بڑے امتحان کی تیاری کتنی اور اچھی کرلی ہے جس میں ان کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے جس کا پرچہ بھی آؤٹ کردیا گیا ہے اور جس میں کامیابی کا criteria بھی ہم سب کو معلوم ہے... فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ (اصل میں کامیاب تو وہ ہے جو جہنم سے بچ گیا اور جنت میں داخل ہوگیا۔ )

                   

متعلقہ عنوانات