زندہ رہنا ہے ہمیں ان کے سہارے آگے

زندہ رہنا ہے ہمیں ان کے سہارے آگے
یہ جو معصوم سے چہرے ہیں ہمارے آگے


روک سکتے ہو تو کشتی کو یہیں پر روکو
تنگ ہو جائیں گے دریا کے کنارے آگے


آسمانوں کا سفر ہے یہ زمینوں کا نہیں
غیب سے ہوں گے کئی اور اشارے آگے


ان کے بارے میں مسافر کو بھلا کیا معلوم
دیکھنے ہیں جو اسے اور نظارے آگے


اس سے بہتر بھی بھلا کوئی سفر کیا ہوگا
چاند پیچھے ہے ہمارے تو ستارے آگے


کوئی تو بات ہے چہرے پہ ہمارے ایسی
آئنے بول نہیں پاتے ہمارے آگے


یہ جدا ہونا بچھڑنا تو تماشا ہے اک
آخری موڑ پہ مل جائیں گے سارے آگے