جانے کیا پھر جی میں آئی چل پڑے
جانے کیا پھر جی میں آئی چل پڑے
ہم نے اک سگریٹ جلائی چل پڑے
غیب سے آئی تھی ہم کو اک صدا
چھوڑ کر ساری خدائی چل پڑے
اس سے پہلے روکتے دیوار و در
آگ خود گھر کو لگائی چل پڑے
آج جانے کا کہیں دل تو نہ تھا
بس کسی کی یاد آئی چل پڑے
اس قدر تھی رہ گزر سے نسبتیں
جب سفر کی بات آئی چل پڑے
شب گئے آواز اک آئی ہمیں
ہم نے بھی ہمت جٹائی چل پڑے
جانتے تھے آخرت کا ہے سفر
آ گئی شام جدائی چل پڑے