روز شام ہوتے ہی شمع کا وہ جل جانا

روز شام ہوتے ہی شمع کا وہ جل جانا
رفتہ رفتہ پھر مجھ میں موم کا پگھل جانا


مطمئن نہیں کرتا چاہے میرے حق میں ہو
ٹھوکریں بنا کھائے یوں مرا سنبھل جانا


بھول ایک لمحے کی عمر بھر پشیمانی
چھوٹ کر کماں سے یوں تیر کا وہ چل جانا


درمیان دونوں کے ہیں تمام اندیشے
حادثے کا ہو جانا حادثے کا ٹل جانا


محفلوں کی وہ رونق قہقہوں کی وہ گونجیں
اور پھر اچانک ہی وقت کا بدل جانا


کس قدر طلسمی تھا سگریٹیں سلگتے ہی
اس تمام منظر کا اک دھوئیں میں ڈھل جانا


اس طلب کو کیا کہئے اس جنوں کا کیا کیجے
اک خیال کے پیچھے یوں مرا نکل جانا