زندہ ہیں ہم تو آج بھی وہم و گماں کے بیچ

زندہ ہیں ہم تو آج بھی وہم و گماں کے بیچ
عمر رواں کٹی مری سود و زیاں کے بیچ


ان کے تو قول و فعل میں بے حد تضاد ہے
وہ جھوٹ کہتے پھرتے ہیں سارے جہاں کے بیچ


دل کو یقیں ہے بھول نہ پائیں گے ہم کو وہ
ڈھونڈا کریں گے ہم کو بھی وہ رفتگاں کے بیچ


ہم نے تو ساتھ دینے کا وعدہ نہیں کیا
محو سفر رہے تھے فقط کارواں کے بیچ


چین و سکون لوٹ کے آرام لے گیا
آئے گا اس کا ذکر مری داستاں کے بیچ


ہم نے شگفتہؔ دور ٹھکانہ بنا لیا
وہ ہم کو ڈھونڈتا ہی رہا گلستاں کے بیچ