بے وفا تم کو بھلانے میں تکلف کیسا
بے وفا تم کو بھلانے میں تکلف کیسا
آئنہ سچ کا دکھانے میں تکلف کیسا
تیرگی گھر کی مٹانے میں تکلف کیسا
دیپ چھوٹا سا جلانے میں تکلف کیسا
پیار کا گیت سنانے میں تکلف کیسا
ہاں پسند اپنی بتانے میں تکلف کیسا
وہ اداسی کے سمندر میں اکیلا ہے بہت
حوصلہ دینے دلانے میں تکلف کیسا
اپنے گلشن کو میں شاداب رکھا کرتی ہوں
گھر کا کچرا بھی اٹھانے میں تکلف کیسا
مجھ کو اکثر وہ یہی بات کہا کرتا ہے
ہم سے ہی ملنے ملانے میں تکلف کیسا
جو شگفتہؔ کو زمانہ یہ ستاتا ہے بہت
آنکھ سے اشک بہانے میں تکلف کیسا