میرے تو گھر میں رہتے ہیں موسم کمال کے

میرے تو گھر میں رہتے ہیں موسم کمال کے
اللہ کرے نہ آئیں کبھی دن زوال کے


اتنا بڑا کیا ہے اسی نے تو پال کے
آنے نہ دے جو پاس مرے دن ملال کے


اک یاد تیری ساتھ تھی اب وہ بھی ڈھل گئی
قصے پرانے ہو گئے میرے گلال کے


دل کو بہت سکون اسے دیکھ کے ملا
خوش باش ہیں وہ خوب مجھے بھول بھال کے


دنیا کی بات چھوڑیئے قصہ یہ گھر کا ہے
دن جا چکے ہیں لوٹ کے رنج و ملال کے


آنسو بہا کے باپ نے بیٹے سے یہ کہا
کیا مل گیا تجھے مری پگڑی اچھال کے


میں سوچتی ہوں کیسی شگفتہؔ یہ بات ہے
اب تو پہاڑ بن گیا غم پال پال کے