وفا کا یہ رشتہ سدا ہی رہے گا

وفا کا یہ رشتہ سدا ہی رہے گا
کسی کے بھی روکے سے یہ کب رکے گا


جو چاہو زمانے کو اپنا بنانا
وفا کی ہی راہوں پہ چلنا پڑے گا


وہ ملتا تھا مجھ سے تو کہتا تھا اکثر
مجھے چھوڑ کے پر سکوں کب رہے گا


یہ قدرت کا دستور ہے سیدھا سادہ
اچھالو گے پتھر تو سر پہ گرے گا


فریبوں پہ تیرے کیا ہے کنارا
زمانہ مجھے کیوں ستم گر کہے گا


اسے یاد آئے گی الفت ہماری
اکیلے میں بیٹھا وہ رویا کرے گا


شگفتہؔ کبھی بھی نہ تجھ سے ملے گی
ترا نام دل میں مرے ہی رہے گا