ذرا سی آس جگائے ذرا امنگ بھرے

ذرا سی آس جگائے ذرا امنگ بھرے
کوئی تو آئے مری زندگی میں رنگ بھرے


مرے لبوں پہ اجالے کوئی تبسم پھر
مری نگاہ میں جلووں کے جل ترنگ بھرے


کبھی تو یوں بھی مری فکر کی ستائش ہو
مرے خیال کی پرچھائیوں میں انگ بھرے


کوئی تو زخم لگاتے کہ جان بر کرتا
کہ تم یہ تیر بھی لے آئے کیسے زنگ بھرے


نہ توڑ میری خموشی کہ تجھ کو زخم ملیں
جو پر سکون ہیں دریا وہ ہیں نہنگ بھرے


دل و دماغ کی ان قربتوں سے لرزاں ہوں
میں سوچتا ہوں کوئی آئے ان میں جنگ بھرے


ابھی جو سوئے ہیں انورؔ اٹھیں گے حشر کے دن
ہمیں وہ جام پلائے گئے ہیں بھنگ بھرے