غم کے تپتے ہوئے صحرا سے نکالے مجھ کو
غم کے تپتے ہوئے صحرا سے نکالے مجھ کو
کیا کوئی ہے جو نگاہوں میں چھپا لے مجھ کو
کیسی معصوم تمنا ہے دل ناداں کی
میں جو بکھروں تو وہی آ کے سنبھالے مجھ کو
رسم الفت تو کبھی وہ بھی نبھائے آ کر
میں خفا ہوں تو کبھی وہ بھی منا لے مجھ کو
تو مجھے چھوڑ کے گمنام نہ ہو جائے کہیں
تیری پہچان ہوں ماتھے پہ سجا لے مجھ کو
تیری محفل میں اندھیرے کی شکایت کیوں ہو
میں ترا دیپ ہوں جب چاہے جلا لے مجھ کو
تیری ہلکی سی توجہ بھی مجھے کافی ہے
بے رخی تیری کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
تھک کے رکنا رہ الفت میں ستم ہے انور
درس دیتے ہیں مرے پاؤں کے چھالے مجھ کو