وہم تھا یا گمان جیسا تھا
وہم تھا یا گمان جیسا تھا
دل کے وہ مہمان جیسا تھا
تیر کاجل کے اس کی آنکھوں میں
اور ابرو کمان جیسا تھا
پھول سے تن پہ اس کے روشن خط
منزلوں کے نشان جیسا تھا
عمر بھر کون یاں ٹھہرتا ہے
میں تو اک سائبان جیسا تھا
جان لو بس کہ الفتوں کا سفر
اک خیالی اڑان جیسا تھا
اب یہاں وسوسوں کے ڈیرے ہیں
دل کہ پہلے مکان جیسا تھا
یہ میں کیوں آج بے ردا ہوں بہت
مجھ پہ کچھ آسمان جیسا تھا