وہ اگر خوش ہے تو ناشاد نہیں ہوں میں بھی

وہ اگر خوش ہے تو ناشاد نہیں ہوں میں بھی
کھو کے اس کو کوئی برباد نہیں ہوں میں بھی


اس کی یادوں سے چمکتے ہیں در و بام مرے
کون کہتا ہے کہ آباد نہیں ہوں میں بھی


کیوں کروں کوہ کنی کیوں میں اٹھاؤں تیشہ
وہ کہ شیریں نہیں فرہاد نہیں ہوں میں بھی


وہ بھی پابند ہوا رسم و رہ دنیا کا
کچھ غم دہر سے آزاد نہیں ہوں میں بھی


اس کو کب فکر رہی ماضیٔ گم گشتہ کی
پھر عجب کیا جو اسے یاد نہیں ہوں میں بھی