دراز گیسو دمکتے عارض کمان ابرو عذاب آنکھیں

دراز گیسو دمکتے عارض کمان ابرو عذاب آنکھیں
اڑا کے رکھیں گی آج اپنا بھی ہوش آخر شراب آنکھیں


یہ سرو سا قد یہ روئے تاباں یہ لب شگفتہ یہ خواب آنکھیں
کہیں چرا لیں نہ چین دل کا یہ نرگسی لا جواب آنکھیں


یہ میری بے باک مستیوں سے جو ہو رہی ہیں گلاب آنکھیں
تو دل کے سب راز کہہ رہی ہیں تمہارے دل کی کتاب آنکھیں


یہ سن کے آئے تھے ان کے دیکھے سے درد دل کا علاج ہوگا
سکون دل کو تو کیا ہی ملتا بڑھا گئیں اضطراب آنکھیں


سو رسم کہنہ میں اپنی قسمت سنوارنے ہم بھی آ گئے ہیں
سنا تھا دل منتخب کریں گی وہ دہر میں انتخاب آنکھیں


ہر اک بدن میں تلاشتی ہیں نہ جانے کس کا وجود انورؔ
کریں گی رسوا ضرور اک دن ہمیں یہ خانہ خراب آنکھیں