زمیں پہ پاؤں کہیں سر پہ آسمان نہیں
زمیں پہ پاؤں کہیں سر پہ آسمان نہیں
وہ سانحہ ہے کہ جو قابل بیان نہیں
تم اپنے پیچھے سراغ اپنا چھوڑ جاؤ گے
کہ تم سے اچھی یہ دھرتی ہے جو چٹان نہیں
جزیرے والو ہو کیوں اپنے حال پہ شاداں
فضائے بحر کا ہر لمحہ با امان نہیں
اس ایک لمس سے اب تک سلگ رہا ہوں میں
کہ اس بدن سا کوئی اور شعلہ دان نہیں
فنا جو ہو گیا اوروں کے واسطے شہزادؔ
اسی کے نام سے منسوب داستان نہیں