زخم کوئی پھول جیسا کھل گیا تو کیا کہوں

زخم کوئی پھول جیسا کھل گیا تو کیا کہوں
ہاتھ تتلی کا اگر پھر چھل گیا تو کیا کہوں


شخص کوئی یاد آتا ہے مجھے اک عمر سے
سوچتا ہوں گر کبھی وہ مل گیا تو کیا کہوں


دیر سے ٹھہرا ہوا تھا تاش کے مینار سا
ایک پتا پھر اچانک ہل گیا تو کیا کہوں


بات دل کی آج اس سے بولنے کا دل کیا
چپ رہا یہ سوچ کر خود دل گیا تو کیا کہوں


ہاں شکایت تھی مجھے پر کچھ نہیں میں نے کہا
ہونٹ کوئی جب نظر سے سل گیا تو کیا کہوں