رہتے ہیں ہوش میں مگر پھر بھی

رہتے ہیں ہوش میں مگر پھر بھی
کچھ تو ہوگا ترا اثر پھر بھی


مجھ کو پاگل نہیں کیا لیکن
تم نے چھوڑی ہے کیا کسر پھر بھی


یوں تو اب گھاؤ بھر گئے بے شک
آتے ہیں سب نشاں نظر پھر بھی


پھینکے پتھر گلوں کو لوٹا ہے
کتنا خاموش ہے شجر پھر بھی


ہم کو احساس ہے سرابوں کا
کرتے ہیں ریت کا سفر پھر بھی


گھر میں ہوں لوگ کب ضروری ہے
لوگوں میں ہو ضرور گھر پھر بھی


چاہے ہم کوششیں کریں لاکھوں
جائیں گے ایک دن تو مر پھر بھی