پھول سے میری یہی غم خواریاں
پھول سے میری یہی غم خواریاں
اک گلستاں میں ہزاروں کیاریاں
بانٹ کر ہم کو کئی ٹکڑے کیے
ہے حکومت کی سبھی تیاریاں
شبنمی قطرے نگاہوں میں دکھے
بن گئے ہیں دھوپ میں چنگاریاں
یہ سیاسی لوگ تو عشرت میں ہیں
آپ کو مجھ کو رہیں دشواریاں
دیکھنا اب بیچ نہ دے ملک کو
کوڑیوں میں بیچ دی خودداریاں
آپ مذہب کو دوا کہتے رہے
ہو گئی ہیں خود اسے بیماریاں
ہم نہیں بولے اگر تو کون پھر
نیند توڑے گا کہ ہوں بیداریاں
سب برے ہیں اک برے کو چن لیا
ہر چناؤں میں یہی لاچاریاں