یہ جب سے رات بزدل ہو گئی ہے
یہ جب سے رات بزدل ہو گئی ہے
دیے کی جنگ مشکل ہو گئی ہے
چراغوں کو ذرا سا حوصلہ دو
ہوا کچھ اور قاتل ہو گئی ہے
مجھے یوں چھوڑ کر جاتی کہاں پر
اداسی خوں میں شامل ہو گئی ہے
کہاں ممکن ہے اس کو ڈھونڈھنا اب
ندی صحرا میں داخل ہو گئی ہے
اسے لذت نہیں معلوم غم کی
اسے ہر چیز حاصل ہو گئی ہے
تمنا ناؤں بن کر بہہ رہی ہے
محبت ایک ساحل ہو گئی ہے
دکھائے ہیں تماشے زندگی نے
مگر جینے کے قابل ہو گئی ہے