ریت گھڑی
آج پھر
پوٹلی کھول کر
پرانا سامان
مجھے ٹٹول رہا ہے
بہت بول رہا ہے
ڈبیہ میں کاجل
ٹوٹی ہوئی پائل
دوپٹے کا گوٹا
شیشہ اک چھوٹا
کچھ دور پڑی ہے
ایک ریت گھڑی ہے
لمحے بہتے رہتے ہیں
مجھ سے کہتے رہتے ہیں
عادتاً
تم آج بھی
مصروف ہو
عادتاً
میں دیر تک
پلٹتا رہوں
ریت گھڑی