زباں خموش نہ رکھتے تو اور کیا کرتے
زباں خموش نہ رکھتے تو اور کیا کرتے
ہم ان سے کیسے بھلا عرض مدعا کرتے
نہ دل کو درد محبت سے آشنا کرتے
نہ زندگی کے لئے چارہ گر دوا کرتے
یہ کوئی بھول نہیں ہے جفا کے بدلے ہم
ہمارا فرض یہی تھا کہ ہم وفا کرتے
نہ اب بہار سے مطلب نہ گلستاں سے غرض
نہ ہم خزاں سے کوئی شکوہ و گلہ کرتے
گلہ فضول ہے فرمانؔ دل نوازی کا
وہ ایسے کب تھے وفا کا صلہ ادا کرتے