آپ کے در سے ہم اٹھ کر جائیں کیا
آپ کے در سے ہم اٹھ کر جائیں کیا
کیا کریں بتلائیے مر جائیں کیا
تیر و نشتر پار دل کے ہو گئے
چیر کر سینہ تمہیں دکھلائیں کیا
آرزوئیں اشک بن کر بہہ گئیں
اب کہو ہم کیا کریں مر جائیں کیا
آپ نے تو کہہ دیا بتلائیے
دل ہی پہلو میں نہیں بتلائیں کیا
آپ نے فرمانؔ سے دھوکا کیا
یہ کہانی پھر سے ہم دہرائیں کیا