یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی

یوں ڈھل گیا ہے درد میں درماں کبھی کبھی
نغمے بنے ہیں گریۂ پنہاں کبھی کبھی


ہونکی ہیں باد صبح کی رو میں بھی آندھیاں
ابلا ہے ساحلوں سے بھی طوفاں کبھی کبھی


بڑھتا چلا گیا ہوں انہی کی طرف کچھ اور
یوں بھی ہوا ہوں ان سے گریزاں کبھی کبھی


آنچوں میں گنگناتے ہیں گلزار گاہ گاہ
شعلوں سے پٹ گیا ہے گلستاں کبھی کبھی


لے سے نکل پڑی ہے کبھی ہچکیوں کی فوج
آہیں بنی ہیں راگ کا عنواں کبھی کبھی


دامان گل رخاں کی اڑا دی ہیں دھجیاں
پھاڑا ہے ہم نے یوں بھی گریباں کبھی کبھی


کلیاں جھلس گئی ہیں دہکنے لگے ہیں پھول
یوں بھی چلی ہے باد بہاراں کبھی کبھی


اس وقت بھی کہ خاطر مجموعہ تھی نصیب
کم بخت دل ہوا ہے پریشاں کبھی کبھی