یہ سوچ سوچ کے بسمل پہ کیا گزرتی ہے
یہ سوچ سوچ کے بسمل پہ کیا گزرتی ہے
کہ دست و بازوئے قاتل پہ کیا گزرتی ہے
جو میرے ساتھ چلو چاندنی کی سیر کو تم
تو دیکھنا مہ کامل پہ کیا گزرتی ہے
میری تباہی پہ منہ پھیر کر نہ ہنس اے دوست
نظر ملا کے تو کہہ دل پہ کیا گزرتی ہے
چراغ بجھ گئے پروانے جل کے خاک ہوئے
نہ پوچھ صاحب محفل پہ کیا گزرتی ہے
جو ہنس کے ڈوب گئے ہائے ان کو کیا معلوم
کہ اب سفینہ و ساحل پہ کیا گزرتی ہے
سرور فاتح منزل کے دیکھنے والو
غرور عظمت منزل پہ کیا گزرتی ہے
تماشہ دیکھنے والے سمجھ نہیں سکتے
تری نظر پہ مرے دل پہ کیا گزرتی ہے