یہ پیکر جمال تو عتاب کے لئے نہیں
یہ پیکر جمال تو عتاب کے لئے نہیں
مرے خدا یہ آدمی عذاب کے لئے نہیں
تجھے ہے شوق بندگی بہشت کے خیال سے
مگر مری عبادتیں ثواب کے لئے نہیں
یہ مجھ سے احتراز کیوں یہ مجھ سے اجتناب کیوں
سوال تجھ سے ہے مگر جواب کے لئے نہیں
جناب کیوں اداس ہیں جناب کیوں ملول ہیں
یہ غم تو ہیں مرے لئے جناب کے لئے نہیں
جسے پسند آئے گا وہ توڑ لے گا شاخ سے
امان اپنے باغ میں گلاب کے لئے نہیں
جو غم اٹھا چکا ہے تو انہیں نہ اب شمار کر
یہ مختصر سی زندگی حساب کے لئے نہیں
زمیں پہ شاہدؔ حزیں حقیقتیں تلاش کر
یہ دشت زندگی کسی سراب کے لئے نہیں