یہ اشک یوں مری آنکھوں سے کم نکلتا ہے
یہ اشک یوں مری آنکھوں سے کم نکلتا ہے
غزل کے رنگ میں راتوں میں غم نکلتا ہے
نہیں کہ چشم غزل کو بھگوئے جائیں ہم
کہ دل ہی روئے تو پھر شعر نم نکلتا ہے
نوازتا ہے وہ کاغذ کو نغمگی کی ردا
وفا کا ذکر جو کرنے قلم نکلتا ہے
ستم طراز تراشے ستم تو کیا غم ہے
کہ اب ستم بھی بہ طرز کرم نکلتا ہے
وہ اور وقت تھا جب ان سے رس ٹپکتا تھا
کہ اب گلاب لبوں سے بھی سم نکلتا ہے
بتاؤ شہر میں خود سا کہاں تلاش کروں
جسے بھی دیکھو وہی محترم نکلتا ہے
بڑھائی جاتی ہیں اس طرح دھڑکنیں دل کی
مرے حضور ہی زلفوں میں خم نکلتا ہے
یہ کون چاند سا اترا ہے خانۂ دل میں
کہ جس کو دیکھ اندھیروں کا دم نکلتا ہے
خوشی مناؤ اے اہل خرد کہ اب تو جنوں
تمہارے شہر سے سوئے عدم نکلتا ہے