یہ آخری زحمت ہے ذرا اور ٹھہر جائیں
یہ آخری زحمت ہے ذرا اور ٹھہر جائیں
بیمار ادھر جائے تو پھر آپ ادھر جائیں
یوں ظلمت شب میں چمک اٹھتے ہیں ستارے
جس طرح سے معصوم بھری نیند میں ڈر جائیں
اچھا تیری محفل سے چلے جاتے ہیں لیکن
یہ اور بتا دے کہ کہاں جائیں کدھر جائیں
اے دست جنوں دیدۂ خوں بار کی سننا
دامن میں جو موتی ہیں کہیں وہ نہ بکھر جائیں
اس دور کے منصور یہ رکھتے ہیں کرامات
سو بار چڑھیں دار پہ سو بار اتر جائیں
دامن کو چھڑا کر نہ ہو مغرور ادھر دیکھ
گر ہاتھ اٹھا دوں مہ و خورشید ٹھہر جائیں
جمعیت خاطر کے لیے بس ہے ترا دھیان
کیوں ایسے خیالات سمیٹوں جو بکھر جائیں