یقین محکم سے کام لینا نہ درمیاں احتمال رکھنا

یقین محکم سے کام لینا نہ درمیاں احتمال رکھنا
سمندروں کے سفر پہ جانا تو حوصلے بھی کمال رکھنا


ہزار زاد سفر سے بڑھ کر وہ ایک چھوٹی سی بات ٹھہری
بوقت رخصت کسی کا کہنا سفر میں اپنا خیال رکھنا


تم اپنی خاطر بچا کے رکھنا مسرتوں کی تمام گھڑیاں
جہان بھر کی اداسیوں کو ہمارے حصے میں ڈال رکھنا


چمن کو کس نے لہو سے سینچا گلوں سے کس نے فریب کھائے
سوال آئے اگر وفا کا تو سامنے یہ سوال رکھنا


غم جہاں سے نظر بچا کے ہم آئیں گے حال دل سنانے
جو ہو سکے تو ہماری خاطر ذرا سی فرصت نکال رکھنا


نہ مصلحت سے خموش رہنے کے ناز تم کو اصول آئے
یہ کیا کہ ہر بات پر بگڑنا یہ کیا کہ اک اشتعال رکھنا