پڑھنے کو بہت کچھ ہے کتابوں کے علاوہ

پڑھنے کو بہت کچھ ہے کتابوں کے علاوہ
کچھ اور پڑھو یار نصابوں کے علاوہ


کیا اور بھی کچھ لوگ یہاں جان سے گزرے
ہم عشق زدہ خانہ خرابوں کے علاوہ


ہر روز نیا روز قیامت ہے زمیں پر
اب یاد نہیں کچھ بھی عذابوں کے علاوہ


سنتے ہیں کوئی جوگی یہاں آیا ہوا ہے
تعبیر بتاتا ہے جو خوابوں کے علاوہ


گر دیکھ رکھا ہو تو کوئی ہم کو بتائے
دنیا کی حقیقت کو سرابوں کے علاوہ


جو نازؔ کو پڑھتے ہیں وہ پھولوں کی دکاں سے
کچھ اور نہیں لیتے گلابوں کے علاوہ