اتنی شدت بھی کیا پیاس میں تھی
اتنی شدت بھی کیا پیاس میں تھی
رات اتری ہوئی گلاس میں تھی
اس کا میں مستند حوالہ تھا
اس کی خوشبو مرے لباس میں تھی
کھا گئی وہ تری دعا کا اثر
اک رعونت جو التماس میں تھی
چاپلوسی منافقت سازش
یہ صفت ہر کنیز و داس میں تھی
خوف طاری تھا شہر یاروں پر
خلقت شہر بھی ہراس میں تھی
اس کی آنکھوں میں پڑھ رہا تھا میں
شاعری جو ابھی قیاس میں تھی
اس کے چہرے پہ دیکھتا تھا میں
جامعیت جو اقتباس میں تھی
شاعری تھی کہ کوئی رقاصہ
اس قدر مختصر لباس میں تھی