یار کی رہ گزار کو بھی دیکھ

یار کی رہ گزار کو بھی دیکھ
پھر غم روزگار کو بھی دیکھ


گو چمن میں ہیں خون کے چھینٹے
پر ذرا لالہ زار کو بھی دیکھ


آدمی قابل یقین نہیں
ایک دیکھا ہزار کو بھی دیکھ


فلسفہ فلسفہ ہی تو ہے بس
زندگی کے نگار کو بھی دیکھ


دونوں کا لطف ختم کر لو گے
گل کو بھی دیکھ خار کو بھی دیکھ


زخم کو میں نے کر لیا ناسور
دیکھ اس شاہ کار کو بھی دیکھ


مفت بدنام ہے مری وحشت
میرؔ جی کے شعار کو بھی دیکھ


زرد گل اور لال پتے ہیں
عرشؔ ایسی بہار کو بھی دیکھ