مے پرستی میں ہی گزر جاؤں

مے پرستی میں ہی گزر جاؤں
اس سے پہلے کہ میں سدھر جاؤں


اپنا وعدہ نبھا نہیں سکتا
کاش اس آنکھ سے اتر جاؤں


مجھ کو مت اس نگاہ سے دیکھو
یہ نہ ہو اب کہ میں ٹھہر جاؤں


یار ہوں سب کا میں اگر خوش ہوں
غیر ہوں میں جو منتشر جاؤں


آج کتنی خوشی کا دن تھا عرشؔ
اب مجھے چاہیے کہ مر جاؤں