یادوں کی دھول سے مرا ماضی اٹا ہوا
یادوں کی دھول سے مرا ماضی اٹا ہوا
بھولوں تو کس طرح ترا چہرہ رٹا ہوا
تجھ سے فقط دعا ہے کہ پھر سے بحال کر
آنکھوں سے ہے جو خواب کا رشتہ کٹا ہوا
بت پوجتا ہوں کعبۂ دل میں ہیں بت کدے
رہتا ہوں اپنی ذات کے اندر بٹا ہوا
آؤ بڑھا کے ہاتھ سمیٹیں کسی طرح
بنجر زمیں کے واسطے بادل چھٹا ہوا
سانسیں بھی مل کے موت سے سازش کریں ندیمؔ
دکھ ہے کہ میرے حق میں مسلسل ڈٹا ہوا