بس جبلت سے ہی لگتا ہوں درندہ جیسے
بس جبلت سے ہی لگتا ہوں درندہ جیسے
رزق کرتا ہوں اکٹھا میں پرندہ جیسے
یوں تو میں ایک زمانے سے تھا مردہ یارم
تم کو دیکھا ہے تو لگتا ہوں میں زندہ جیسے
تیرے کوچے میں لیے آس کھڑا ہوں میں یوں
کوئی دفتر میں ہو درخواست دہندہ جیسے
ایسے افسوس لیے دیکھ رہے ہیں سارے
میں کوئی شہر ہوں برباد کنندہ جیسے
اپنے حصے کا اجالا تو کروں گا امشب
اڑتا پھرتا ہوں ندیمؔ آج خزندہ جیسے