سوشل میڈیا کے دانش ور بے اثر کیوں ہوتے ہیں؟

سوشل میڈیا اب ہماری زندگی کی حقیقت ہے۔ ہم سوشل میڈیا کی سرگرمیوں سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ جو لوگ سوشل میڈیا پر نہیں ہیں وہ بھی کسی نہ کسی طریقے سے سوشل میڈیا کی خبروں اور تحریروں سے واقف ہوجاتے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک اوپن سورس میڈیا ہے ، ہر کوئی جو چاہے لکھ، بول اور دیکھا سکتا ہے۔ لیکن معلومات کے اس انبار میں کام کی باتیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔۔۔سوشل میڈیا پر بے اثر اور نام نہاد دانشوروں کے بارے میں ایک اصلطلاح وجود میں آئی ہے۔۔۔ سوشل میڈیا کے بائیسویں گریڈ کے دانشور۔۔۔چلیے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسے مصلح یا دانشور اتنے بےاثر کیوں ہیں؟

پروردگار نے جنہیں تحریر یا تقریر کا ہنر عطا فرمایا ہے انہیں یہ محض تفریح طبع اور حظ اٹھانے کے لئے ہی نہیں دیا گیا بلکہ اس عطا کے پیچھے قسامِ ازل نے ضرور کوئی نہ کوئی مثبت مقصد رکھا ہوتا ہے۔ ہر نعمت اپنے ساتھ ایک ذمہ داری کا بار لیے ہوئے ہوتی ہے ۔ حقوق کے ساتھ ساتھ فرائض بھی  ہوتے ہیں۔ حق اس کا ہے جو فرض بھی ادا کرتا ہے جو فرائض سے غفلت برتتا ہے وہ حقوق بھی طلب کرنے میں حق بجانب نہیں ہوتا۔ 
سوشل میڈیا کی آمد نے تحریر و تقریر کی ڈائمینشنز بدل دی ہیں ۔ ہر انسان جو اسٹیٹس ٹائپ کر سکتا ہے وہ سوشل میڈیا کا لکھاری ہے۔  ہر شخص جو موبائل کیمرہ استعمال کرنا جانتا ہے وہ سوشل میڈیا جرنلسٹ یا اسٹار ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے ۔ سارا کھیل ویوز ، سبسکرائبرز ، فالورز اور شیئرز یا ریٹویٹس کا ہے ۔ یہ تمام چیزیں آپ کی مقبولیت بڑھا کر آپ کو راتوں رات ایک عام آدمی سے اسٹار بھی بنا سکتی ہیں ا طرح دیکھتے ہی دیکھتے سٹار سے عام آدمی یا عام آدمی سے بھی نیچے بد نام آدمی میں بدل سکتی ہیں ۔مقبولیت کے معیارات اور پیمانے بدل چکے ہیں۔
دور کہاں جانا، اپنی ہی مثال عرض کیے دیتا ہوں۔  پچھلے دنوں میں نے  بڑھتی ہوئی گرمی کے اثرات و تدارک کے حوالے سے الف یار پر ایک تحریر لکھی تھی۔ اس تحریر کا سب سے زیادہ اثر کامران خالد صاحب، جو میرے نہایت مخلص اور خیر خواہ دوست ہیں، پے ہوا ۔ انہوں نے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد گرمی سے بچاؤ کی باقاعدہ تبلیغ شروع کردی ۔
میں اس حقیقت کے آفشل داعی ہونے کے باوجود خود احتیاطی تدابیر پر اپنی سستی کی وجہ سے عمل پیرا ہونے میں ناکام رہا۔ نتیجتاً اکثر سر درد میں مبتلا رہنے لگا ۔ کامران صاحب کے بار بار توجہ دلاؤ نوٹس کے باوجود جب میں نے ان کی بات پر کان نہ دھرا تو انہوں نے 'بڑے گھروں' کا رخ کیا اور بابا جی سے میری شکایت کردی۔ 
بابا جی نے میری نالائقی پر بڑی محبت سے میری سرزنش کی ۔ مجھے قول و فعل میں تضاد کم کرنے کی ترغیب دی۔ ان کی ساری گفتگو میں سے چند حکمت بھرے جملے میرے ذہن میں چپک سے گئے۔ فرمایا :
"سوشل میڈیا کے ریفارمرز جو لکھتے اور بولتے ہیں اگر وہ سب کرنے میں بھی لگیں تو ہمارے اکثر مسائل حل ہو جائیں "
انہوں نے مزید فرمایا :
" اگر لکھنے والا اپنی بات پر خود بھی عامل ہو تو بات کی اثرپذیری بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس بات پر آپ خود عمل کرتے ہیں اس پر آپ کا یقین پختہ ہو جاتا ہے ۔ پختہ یقین سے لکھی ہوئی تحریر تقدیر بن جاتی ہے"
 میں نے جب سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کے زینے چڑھنے والے اور پھر اسی تیزی کے ساتھ واپسی کا سفر طے کرنے والے چند افراد کے عروج و زوال کی داستان پر غور کیا تو ان میں سے اکثر میں بے عملی قدر مشترک نظر آئی۔ آپ چند کتابیں پڑھ کر یا لیکچر سن کر  انہیں نقل کرنے سے لوگوں پر ایک ریفارمر ہونے کا تاثر تو قائم کرسکتے ہیں لیکن اسے دیر تک برقرار نہیں رکھ سکتے۔  اگر آپ ان تمام نصیحتوں پر خود عمل پیرا نہیں ہوتے تو آپ لفظوں کے بیوپاری تو بن سکتے ہیں اچھے نہیں بن سکتے۔ سوشل میڈیا پر اچھی اچھی باتیں کرنے والوں کی تحریر و تقریر میں اسی لیے وہ جان نہیں رہی کہ انہیں لکھنے یا کرنے والے کسی طرح کی اصلاح کے لئے  نہیں لکھتے بلکہ چند ویوز، لائکس یا  ری ریٹویٹس کے لئے لکھتے ہیں۔ خلیل الرحمن قمر صاحب کی وہ مشہور نظم یاد آ رہی ہے :
میری شہرت میرا ڈنکا میرے اعزاز کا سن کر
 کبھی یہ نہ سمجھ لینا میں چوٹی کا لکھاری ہوں
 میں بزنس مین ہوں جاناں 
میں چھوٹا سا بیوپاری ہوں
میری آڑھت پہ برسوں سے 
جو مہنگے دام بکتا ہے 
وہ تیرے غم کا سودا ہے
 تیری آنکھیں تیرے آنسو تیری چاہت تیرے جذبے 
یہاں شیلفوں پہ رکھے ہیں 
وہی تو میں نے بیچے ہیں
 تمہاری بات چھڑ جائے تو باتیں بیچ دیتا ہوں 
ضرورت کچھ زیادہ ہو تو یادیں بیچ دیتا ہوں 
تمہارے نام کے صدقے بہت پیسہ کمایا ہے
 نئی گاڑی خریدی ہے نیا بنگلہ بنایا ہے 
مگر کیوں مجھ کو لگتا ہے 
میرے اندر کا بیوپاری تمہیں کو بیچ آیا ہے
میں بزنس مین ہوں جاناں 
میں بزنس مین ہوں جاناں 

خلیل الرحمن قمر کی یہ نظم انھی کی زبانی سننے کے لیے اس پر کلِک کیجیے
ہر چیز برائے فروخت نہیں ہوتی۔۔۔ کئی چیزیں بڑی انمول ہوتی ہیں۔۔۔ جیسے کئی لمحے۔۔۔ کئی جذبے۔۔۔ کئی باتیں ۔۔۔ کئی یادیں۔۔۔انہیں انمول ہی رہنا چاہیے۔۔۔ کہ کبھی کبھی اگر انمول چیز کو جب مول لگانے کے پیش کر دیا جائے۔۔۔ تو وہ بے مول ہو کر رہ جاتی ہے۔۔۔ ہم وہ گھاٹے کا سودا کرنے والے بیوپاری ہیں جو چیزوں کے مول بڑھانے کے چکر میں انہیں بے مول کر دیتے ہیں۔۔۔
ہم سوشل میڈیا ریفارمرز کا یہی المیہ ہے!

متعلقہ عنوانات