شیخ احمد سرہندی ،مجدد الف ثانی کا اصل کارنامہ کیا تھا؟

ساتویں صدی میں فتنۂ تاتار نے ہندوکش سے اُس پار کی دنیا کو تو بالکل تاخت و تاراج کر دیا، مگر ہندوستان اس کی دست بُرد سے بچ گیا تھا۔ اس ڈھیل نے یہاں کے مترفین کو اسی غلط فہمی میں ڈال دیا جو ہمیشہ فریفتگانِ زینتِ دنیا کو لاحق ہوتی ہے۔ یہاں وہ تمام خرابیاں پرورش پاتی رہیں جو خراسان و عراق میں تھیں۔ وہی پادشاہوں کی خداوندی، وہی امراء و اہلِ دولت کی عیش پسندی، وہی باطل طریقوں سے مال لینا اور باطل راستوں میں خرچ کرنا، وہی جبر و ظلم کی حکومت، وہی خدا سے غفلت اور دین کی صراطِ مستقیم سے بُعد۔ رفتہ رفتہ نوبت اکبر بادشاہ کے دورِ حکومت تک پہنچی جس میں گمراہیاں اپنی حد کو پہنچ گئیں۔

اکبر کے دربار میں یہ رائے عام تھی کہ ملتِ اسلام جاہل بدوؤں میں پیدا ہوئی تھی۔ کسی مہذب و شائستہ قوم کے لیے وہ موزوں نہ تھی۔ نبوت، وحی، حشر و نشر، دوزخ و جنت، ہر چیز کا مذاق اڑایا جانے لگا۔ قرآن کا کلامِ الٰہی ہونا مشتبہ، وحی کا نزول عقلاً مستعبد، مرنے کے بعد ثواب و عذاب غیر یقینی، البتہ تناسخ ہر آئینہ ممکن و اقرب الی الصواب۔ معراج کو علانیہ محال قرار دیا جاتا۔ ذاتِ نبوی پر اعتراضات کیے جاتے۔ خصوصاً آپ کی ازواج کے تعدد اور آپ کے غزوات و سرایات پر کھلم کھلا حرف گیریاں کی جاتیں۔ یہاں تک کہ لفظ احمد اور محمد سے بھی بیزاری ہو گئی اور جن کے ناموں میں یہ لفظ شامل تھا ان کے نام بدلے جانے لگے۔ دنیا پرست علماء نے اپنی کتابوں کے خطوں میں نعت لکھنی چھوڑ دی۔ بعض ظالم اس حد تک بڑھے کہ دجال کی نشانیاں ہادئ اعظم صلی اللہ علیہ و سلم پر چسپاں کرنے لگے العیاذ باللہ، العیاذ باللہ۔ دیوانخانۂ شاہی میں کسی کی مجال نہ تھی کہ نماز ادا کر سکے۔ ابو الفضل نے نماز، روزہ، حج اور دوسرے شعائرِ دینی پر سخت اعتراضات کیے اور ان کا مذاق اڑایا۔ شعراء نے ان شعائر کی ہجو لکھی جو عوام کی زبانوں تک بھی پہنچی۔

بہائی نظریہ کی بناء بھی دراصل اکبری عہد میں ہی پڑی تھی۔ اس وقت یہ نظریہ قائم ہو گیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت پر ایک ہزار سال گزر چکے ہیں اور اس دین کی مدت ایک ہزار سال ہی تھی، اس لیے اب وہ منسوخ ہو گیا اور اس کی جگہ نئے دین کی ضرورت ہے۔ اس نظریہ کو سکوں کے ذریعہ سے پھیلایا گیا کیونکہ اس زمانہ میں نشر و اشاعت کا سب سے زیادہ قوی ذریعہ یہی تھا۔ اس کے بعد ایک نئے دین اور نئی شریعت کی طرح ڈالی گئی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے مذہب کو ملا کر ایک مخلوط مذہب بنایا جائے تاکہ شاہی حکومت مستحکم ہو۔ دربار کے خوشامدی ہندوؤں نے اپنے بزرگوں کی طرف سے پیشین گوئیاں سنانی شروع کر دیں کہ فلاں زمانہ میں ایک گئو رکھشک مہاتما بادشاہ پیدا ہو گا اور اسی طرح بندۂ زر علماء نے بھی اکبر کو مہدی اور صاحبِ زماں اور امامِ مجتہد وغیرہ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ایک "تاج العارفین" صاحب یہاں تک بڑھے کہ اکبر کو انسانِ کامل اور خلیفۃ الزمان ہونے کی حیثیت سے خدا کا عکس ہی ٹھیرا دیا۔ عوام کو سمجھانے کے لیے کہا گیا کہ حق اور صدق (عالمگیر سچائیاں ) تمام مذاہب میں موجود ہیں ، کوئی ایک ہی دین حق کا اجارہ دار نہیں ہے ، لہٰذا سب مذہبوں میں جو جو باتیں حق ہیں انہیں لے کر ایک جامع طریقہ بنانا چاہیے اور اس کی طرف لوگوں کو دعوتِ عام دینی چاہیے تاکہ ملتوں کے سب اختلافات مٹ جائیں۔ اسی طریق جامع کا نام "دینِ الٰہی" ہے ، اس نئے دین کا کلمہ لا الٰہ الا اللہ اکبر خلیفۃ اللہ تجویز کیا گیا۔ جو لوگ اس دین میں داخل ہوتے ان کو "دینِ الٰہی اکبر شاہی" میں داخل ہونا پڑتا تھا، اور داخل ہونے کے بعد ان کو لفظ "چیلہ" سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ سلام کا طریقہ بدل کر یوں کر دیا گیا کہ سلام کرنے والا "اللہ اکبر" اور جواب دینے والا "جل جلالہ" کہتا۔ یاد رہے کہ بادشاہ کا نام جلال الدین اور لقب اکبر تھا۔ چیلوں کو بادشاہ کی تصویر دی جاتی اور وہ اسے پگڑی میں لگاتے۔ بادشاہ پرستی اس دین کے ارکان میں سے ایک رکن تھی۔ ہر روز صبح کو بادشاہ کا درشن کیا جاتا اور بادشاہ کے سامنے جب حاضری کا شرف عطا ہوتا تو اس کے سامنے سجدہ بجا لایا جاتا۔ علماء کرام اور صوفیائے با صفا دونوں اپنے اس قبلۂ حاجات اور کعبۂ مرادات کو بے تکلف سجدہ فرماتے تھے اور صریح شرک کو "سجدۂ تحیہ" اور "زمین بوسی" جیسے الفاظ کے پردے میں چھپاتے تھے۔ یہ وہی ملعون حیلہ بازی تھی جس کی پیشین گوئی نبیﷺنے فرمائی تھی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب لوگ حرام چیز کا نام بدل کر اس کو حلال کر لیا کریں گے۔

اس نئے دین کی بناء تو یہ کہہ کر رکھی گئی تھی کہ اس میں بلا کسی تعصب کے ہر مذہب کی اچھی باتیں لی جائیں گی،مگر دراصل اس میں اسلام کے سوا ہر مذہب کی پذیرائی تھی اور نفرت و عداوت کے لیے صرف اسلام اور اس کے احکام و قوانین ہی کو مختص کر لیا گیا تھا۔ پارسیوں سے آتش پرستی لی گئی، اکبری محل میں دائمی آگ کا الاؤ روشن کیا گیا اور چراغ روشن کرنے کے وقت قیامِ تعظیمی کیا جانے لگا۔ عیسائیوں سے "ناقوس نوازی" اور "تماشائے صورتِ ثالثِ ثلٰثہ" اور اسی قسم کی چند چیزیں لی گئیں۔ سب سے زیادہ نظرِ عنایت ہندویت پر تھی، کیونکہ یہ ملک کی اکثریت کا مذہب تھا اور پادشاہی کی جڑیں مضبوط کرنے کے لیے اس کی استمالت ضروری تھی۔ چنانچہ گائے کا گوشت حرام کیا گیا۔ ہندو تہوار دیوالی، دسہرہ، راکھی، پونم، شیو راتری وغیرہ پوری ہندوانہ رسوم کے ساتھ منائے جانے لگے۔ شاہی محل میں ہَوَن کی رسم ادا کی جانے لگی۔ دن میں چار وقت آفتاب کی عبادت کی جاتی۔ اور آفتاب کے ایک ہزار ناموں کا جاپ کیا جاتا۔ آفتاب کا نام جب زبان پر آتا "چلۃ قدرۃ" کے الفاظ کہے جانے لگے ، پیشانی پر قشقہ لگایا جاتا۔ دوش و کمر پر جنیو ڈالا جاتا اور گائے کی تعظیم کی جاتی۔ معاد کے متعلق عقیدۂ تناسخ کو تسلیم کر لیا گیا اور برہمنوں سے ان کے دوسرے بہت سے اعتقادات سیکھے گئے۔ یہ سارا معاملہ تو تھا دوسرے مذاہب کے ساتھ۔ رہا اسلام تو اس کے معاملے میں بادشاہ اور درباریوں کی ایک ایک حرکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کو ان سے ضد اور چڑ ہو گئی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے خلاف دوسرے مذاہب والوں کی طرف سے جو بات دربار کا رنگ دیکھ فلسفیانہ و صوفیانہ انداز میں پیش کر دی جاتی اسے وحی آسمانی سمجھ لیا جاتا اور اس کے مقابلے میں اسلامی تعلیم رد کر دی جاتی۔ علماء اسلام اگر اسلام کی طرف سے کوئی بات کہتے، یا کسی گمراہی کی مخالفت کرتے تو انہیں "فقیہ" کے نام سے موسوم کیا جاتا جس کے معنی ان کی اصطلاح خاص میں احمق اور ناقابلِ التفات آدمی کے ہو گئے تھے۔ چالیس آدمیوں کی ایک کمیٹی مذاہب کی تحقیق کے لیے مقرر کی گئی تھی جس میں مذاہب کا مطالعہ بڑی رواداری بلکہ عقیدت مندی کے ساتھ کیا جاتا تھا، مگر اسلام کا نام آتے ہی اس کا مذاق اڑایا جانے لگتا تھا، اور اگر اسلامی کا کوئی حامی جواب دینا چاہتا تو اس کی زبان بند کر دی جاتی تھی۔ یہ برتاؤ اسی حد تک نہ رہا بلکہ عملاً اسلام کے احکام کی دل کھول کر ترمیم و تنسیخ کی گئی۔ سود، جوئے اور شراب کو حلال کیا گیا۔ شاہی محل میں نو روز کے موقع پر شراب کا استعمال ضروری تھا۔ حتیٰ کہ قاضی و مفتی تک پی جاتے تھے۔ ڈاڑھی منڈوانے کا فیشن عام کیا گیا اور اس کے جواز پر دلائل قائم کیے گئے۔ چچا زاد اور ماموں زاد بہن سے نکاح کو ممنوع قرار دیا گیا۔ لڑکے کے لیے 16 سال اور لڑکی کے لیے 14 سال عمرِ نکاح مقرر کی گئی۔ ایک بیوی سے زیادہ بیویاں رکھنے کی ممانعت کی گئی۔ ریشم اور سونے کے استعمال کو حلال کیا گیا۔ شیر اور بھیڑیے کو حلال کیا گیا۔ سؤر کو اسلام کی ضد میں نہ صرف پاک بلکہ ایک مقدس جانور قرار دیا گیا۔ حتیٰ کہ صبح آنکھ کھولتے ہی اسے دیکھنا مبارک خیال کیا جاتا تھا۔ مُردوں کو دفن کرنے کے بجائے جلانا یا پانی میں بہانا احسن ٹھیرایا گیا اور اگر کوئی دفن ہی کرنا چاہے تو سفارش کی گئی کہ پاؤں قبلہ کی طرف رکھے جائیں۔ اکبر خود اسلام کی ضد میں قبلہ ہی کی طرف پاؤں کر کے سونے کا التزام کرتا تھا۔ حکومت کی تعلیمی پالیسی بھی سراسر اسلام کی مخالف تھی۔ عربی زبان کی تعلیم اور فقہ و حدیث کے درس کو ناپسندیدہ سمجھا جاتا تھا اور جو لوگ ان علوم کو حاصل کرتے وہ حقیر خیال کیے جاتے۔ علومِ دینی کے بجائے حکمت و فلسفہ، ریاضی و تاریخ اور اس نوع کے علوم کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی۔ زبان میں ہندیت پیدا کرنے کی طرف خاص میلان تھا اور عربی حروف کو خارج کرنے کی بھی تجویزیں تھیں۔ ان حالات کی وجہ سے دینی مدرسے ویران ہونے لگے اور اکثر اہلِ علم ملک چھوڑ چھوڑ کر نکلنے لگے۔

یہ تو تھا حکومت کا حال۔ اور عوام کا حال یہ تھا کہ جو لوگ باہر سے آئے تھے وہ ایران و خراسان کی اخلاقی و اعتقادی بیماریاں ساتھ لائے تھے ، اور جو لوگ ہندوستان ہی میں مسلمان ہوئے تھے ان کی اسلامی تعلیم و تربیت کا کوئی خاص انتظام نہ تھا، اس لیے وہ پرانی جاہلیت کی بہت سی باتیں اپنے خیالات اور اپنی عملی زندگی میں لیے ہوئے تھے۔ ان دونوں قسم کے مسلمانوں نے مِل جُل کر ایک عجیب مرکب تیار کیا تھا جس کا نام "اسلامی تمدن" تھا۔ اس میں شرک بھی تھا۔ نسلی اور طبقاتی امتیازات بھی تھے ، اوہام و خرافات بھی تھے ، اور نو ایجاد رسموں کی ایک نئی شریعت بھی تھی۔ دنیا پرست علماء و مشائخ نے نہ صرف اس مخلوطہ سے موافقت کر لی تھی بلکہ وہ اس نئے "مت" کے پروہت بن گئے تھے۔ لوگوں کی طرف سے ان کو نذرانے پہنچتے ، اور ان کی طرف سے لوگوں کو فرقہ بندی کا تحفہ ملتا۔

یہ حالات تھے جب اکبری سلطنت کے ابتدائی ایام میں شیخ احمد سرہندی پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم و تربیت ایسے لوگوں میں ہوئی تھی جو اس دَور کے صالح ترین لوگ تھے ، گو اپنے گرد و پیش کے فساد کا مقابلہ نہ کر سکتے تھے مگر کم از کم اپنے ایمان اور عمل کو بچائے ہوئے تھے اور جہاں تک ہو سکتا تھا دوسروں کی اصلاح بھی کر رہے تھے۔ خصوصیت کے ساتھ شیخ کو سب سے زیادہ فیض حضرت باقی اللہ صاحب سے پہنچا تھا جو اپنے وقت کے ایک بڑے صالح بزرگ تھے۔ مگر خود شیخ کی ذاتی صلاحیتوں کا یہ حال تھا جب حضرتِ موصوف کے ساتھ راہ و رسم کی ابتدا ہوئی تھی اسی وقت انہوں نے شیخ کے متعلق اپنے یہ خیالات ایک دوست کو لکھ کر بھیجے تھے :

"حال میں سرہند سے ایک شخص شیخ احمد نامی آیا ہے۔ نہایت ذی علم ہے۔ بڑی عملی طاقت رکھتا ہے۔ چند روز فقیر کے ساتھ ہی اس کی نشست و برخاست ہوئی ہے۔ اس دوران میں اس کے حالات کا جو مشاہدہ ہوا اس کی بنا پر توقع ہے کہ آگے چل کر یہ ایک چراغ ہو گا جو دنیا کو روشن کر دے گا۔"

یہ پیشین گوئی پوری ہوئی۔ ہندوستان کے گوشوں میں بہت سے حق پرست علماء اور سچے صوفیہ بھی اس وقت موجود تھے۔ مگر ان سب کے درمیان وہ ایک اکیلا شخص تھا جو وقت کے اِن فتنوں کی اصلاح اور شریعتِ محمدی کی حمایت کے لیے اٹھا اور جس نے شاہی قوت کے مقابلہ میں یکہ و تنہا احیاء دین کی جدوجہد کی۔ اس بے سر و سامان فقیر نے علی الاعلان اٹھ کر اُن گمراہیوں کی مخالفت کی جنہیں حکومت کی حمایت حاصل تھی اور اُس شریعت کی تائید کی جو حکومت کی نگاہ میں مبغوض تھی۔ حکومت نے اس کو ہر طرح دبانے کی کوشش کی، حتیٰ کہ جیل بھی بھیجا، مگر بالآخر وہ فتنہ کا منہ پھیرنے میں کامیاب ہو گیا۔ جہانگیر، جس نے سجدۂ تحیہ نہ کرنے پر شیخ کو گوالیار کے قید خانہ میں بھیج دیا تھا، آخر کار شیخ کا معتقد ہو گیا اور اپنے بیٹے خرم کو، جو بعد میں شاہجہاں کے لقب سے تخت نشین ہوا، ان کے حلقۂ بیعت میں داخل کیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے متعلق حکومت کی معاندانہ روش احترام سے بدل گئی۔ "دینِ الٰہی اکبر شاہی" ان تمام بدعتوں کے ساتھ ختم ہوا جو درباری شریعت سازوں سے گھڑی تھیں۔ اسلامی احکام کی جو ترمیم و تنسیخ کی گئی تھی وہ خود منسوخ ہو گئی۔ حکومت اگرچہ شاہی حکومت ہی رہی۔ مگر کم از کم اتنا ہوا کہ علومِ دینی اور احکامِ شرعی کی طرف اس کا رویہ کافرانہ ہونے کے بجائے عقیدتمندانہ ہو گیا۔ شیخ کی وفات کے تین چار سال بعد عالمگیر پیدا ہوا اور غالباً وہ شیخ ہی کے پھیلائے ہوئے اصلاحی اثرات تھے جن کی بدولت تیموری خاندان کے اس شہزادے کو وہ عملی اور اخلاقی تربیت مل سکی کہ اکبر جیسے ہادمِ شریعت کا پرپوتا خادمِ شریعت ہوا۔

شیخ کا کارنامہ اتنا ہی نہیں ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں حکومت کو بالکل ہی کفر کی گود میں چلے جانے سے روکا اور اس فتنۂ عظیم کے سیلاب کا منہ پھیرا جو اب سے تین چار سو برس پہلے ہی یہاں اسلام کا نام و نشان مٹا دیتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے دو عظیم الشان کام اور بھی انجام دیے۔ ایک یہ کہ تصوف کے چشمۂ صافی کو اُن آلائشوں سے جو فلسفیانہ اور راہبانہ گمراہیوں سے اس میں سرایت کر گئی تھیں ، پاک کر کے اسلام کا اصلی اور صحیح تصوف پیش کیا۔ دوسرے یہ کہ ان تمام رسومِ جاہلیت کی شدید مخالفت کی جو اس وقت عوام میں پھیلی ہوئی تھیں اور سلسلۂ بیعت و ارشاد کے ذریعہ سے اتباعِ شریعت کی ایک ایسی تحریک پھیلائی جس کے ہزار ہار تربیت یافتہ کارکنوں نے نہ صرف ہندوستان کے مختلف گوشوں میں بلکہ وسط ایشیا تک پہنچ کر عوام کے اخلاق و عقائد کی اصلاح کی کوشش کی۔ یہی کام ہے جس کی وجہ سے شیخ سرہندی کا شمار مجدّدین ملت میں ہوتا ہے۔

متعلقہ عنوانات