وہ جو غزلوں کے استاد ہیں دوستوں

وہ جو غزلوں کے استاد ہیں دوستوں
کیا کہیں کتنے جلاد ہیں دوستوں


زندگی کی زباں ان کو آتی نہیں
وہ کتابوں کی ایجاد ہے دوستوں


ایک بھی شعر غالب کا سمجھے نہیں
ویسے غالب کی اولاد ہیں دوستوں


بلبلوں سی وہ غزلیں سنواریں گے کیا
وہ تخلص سے صیاد ہیں دوستوں


کیا عجب شخص ہیں کچھ بھی سمجھے بنا
دے رہے داد پر داد ہیں دوستوں


ان کے شاگرد جو بھی ہیں برباد ہیں
اور وہ ہیں کہ آباد ہیں دوستوں


اب بھی ساقی صراحی میں الجھے ہیں وہ
گزرے وقتوں کی اک یاد ہیں دوستوں