رشتوں کی بھیڑ میں بھی وہ تنہا کھڑا رہا

رشتوں کی بھیڑ میں بھی وہ تنہا کھڑا رہا
ندیاں تھی اس کے پاس وہ پیاسا کھڑا رہا


سب اس کو دیکھ دیکھ کے باہر چلے گئے
وہ آئینہ تھا گھر میں اکیلا کھڑا رہا


اس دور میں اس شخص کی ہمت تو دیکھیے
اپنوں کے بیچ رہ کے بھی زندہ کھڑا رہا


میرے پتا کی عمر سے کم تھی نہ اس کی عمر
وہ گر رہا تھا اور میں ہنستا کھڑا رہا


بارش ہوئی تو لوگ سبھی گھر میں چھپ گئے
وہ گھر کی چھت تھا اس لئے بھیگا کھڑا رہا


اس گھر میں پانچ بیٹے تھے سب تھے الگ الگ
اک باپ بن کے ان کی سمسیا کھڑا رہا


دنیا کو اس نے روشنی بانٹی تمام عمر
لیکن وہ اپنی آگ میں جلتا کھڑا رہا