کل نہ بدلا وہ آج بدلے گا
کل نہ بدلا وہ آج بدلے گا
وقت اپنا مزاج بدلے گا
آدمی کے یہاں تلاش کرو
آدمی ہی سماج بدلے گا
پھول مالا بنے رہے جو تم
کیسے کانٹوں کا راج بدلے گا
وہی افسر وہی چپراسی
کیسے سب کام کاج بدلے گا
وہ جو خود کو بدل نہیں سکتا
وہ بھلا کیا رواج بدلے گا
روگ بڑھتا ہی جا رہا ہے دوست
جانے وہ کب علاج بدلے گا