ہم نہ اردو میں نہ ہندی میں غزل کہتے ہیں
ہم نہ اردو میں نہ ہندی میں غزل کہتے ہیں
ہم تو بس آپ کی بولی میں غزل کہتے ہیں
وہ امیری میں غزل کہتے ہیں کہتے ہوں گے
سچے شاعر تو فقیری میں غزل کہتے ہیں
ایسے شاعر بھی غریبی نے کیے ہیں پیدا
لیڈروں کی جو غلامی میں غزل کہتے ہیں
کس کو فرصت ہے جو اب شعر کہے اور سنے
وہی اچھے ہیں جو جلدی میں غزل کہتے ہیں
اب نہ مستی ہے نہ مستی کا سبب بھی کوئی
پھر بھی حیرت ہے وہ مستی میں غزل کہتے ہیں
آنکھیں مطلع ہیں ادھر جن کے ہیں حسن مطلع
اس جوانی کو جوانی میں غزل کہتے ہیں
وہ غزل کہتے ہیں معقول ہوا ملنے پر
ایک ہم ہیں کہ جو آندھی میں غزل کہتے ہیں