وہ ایک غم کہ سہارا تھا زندگی کے لیے

وہ ایک غم کہ سہارا تھا زندگی کے لیے
بھلا رہا ہوں اسے بھی تری خوشی کے لیے


تو یوں خیال کے دروازے ہم پہ بند نہ کر
ہزار شہر کھلے ہوں گے اجنبی کے لیے


جہاں میں کون بچا ہے ہمارے قتل کے بعد
جو تیری زلف مچلتی ہے برہمی کے لیے


خزاں کا دور چمن میں نیا نہیں ہے مگر
کلی کلی نہ ترستی تھی تازگی کے لیے


ہر ایک سمت سرابوں کے قافلے ہیں رواں
نظر نظر میں بیاباں ہے آدمی کے لیے


جگر کے داغ چھپائے کبھی جو ہم نے خلیلؔ
اندھیرے دل میں اتر آئے روشنی کے لیے