انجام عشق مانا اکثر برا ہوا ہے
انجام عشق مانا اکثر برا ہوا ہے
بے عشق زندگی کا انجام کیا ہوا ہے
کیا حال دل سنائیں کیا وجہ غم بتائیں
بس یہ کہ آج کل وہ ہم سے کھچا ہوا ہے
کیا ذکر گل رخوں کا اس شہر کے کریں ہم
ہر شخص ہی یہاں تو قاتل بنا ہوا ہے
کس کس سے مل چکے ہیں کس کس سے اب ملیں گے
اک روگ زندگی کو یہ بھی لگا ہوا ہے
ایسی خلیلؔ آخر کیا بات ہو گئی ہے
آنکھیں اداس سی ہیں چہرہ بجھا ہوا ہے