ہوں مبارک تم کو شیدائی بہت

ہوں مبارک تم کو شیدائی بہت
ہیں ہمارے بھی تمنائی بہت


ہم ہی کچھ اس کے نہ کام آئے کبھی
زندگی تو اپنے کام آئی بہت


رات بھی تھے گوش بر آواز ہم
دل دھڑکنے کی صدا آئی بہت


ڈوبنا چاہیں تو اے ظالم ہمیں
ہے تری آنکھوں کی گہرائی بہت


ہم ہی کچھ سوچیں گے اب اے چارہ گر
دیکھ لی تیری مسیحائی بہت


بد گماں ہوتے نہ تھے یوں تجھ سے ہم
آج کل رہتی ہے تنہائی بہت


بے وفا اس کو ہی کیوں کہیے خلیلؔ
ہے ہمارا دل بھی ہرجائی بہت