دل میں ویرانیاں سسکتی ہیں

دل میں ویرانیاں سسکتی ہیں
کیسی روحیں یہاں بھٹکتی ہیں


یہ تعاقب میں کون آتا ہے
کس کی پرچھائیاں لپکتی ہیں


رونقیں جنگلوں میں گریہ کناں
شہر میں آندھیاں بلکتی ہیں


آسماں ٹوٹ کر نہیں گرتا
بجلیاں رات بھر کڑکتی ہیں


عشق آسیب ہو گیا جیسے
خواہشیں زہر بن کے پکتی ہیں


گم ہوئے قافلے تمنا کے
منزلیں راستوں کو تکتی ہیں


دل میں رکتی نہیں تری یادیں
نوک مژگاں سے آ ٹپکتی ہیں


خوف آتا ہے جاگنے سے ہمیں
ورنہ آنکھیں کہاں جھپکتی ہیں